Download Novel

Saturday, August 17, 2019

  ABDULLAH 3 Episode 6 By Hashim Nadeem

                    (چھٹی قسط ) “III عبداللہ ”

         Download PDF Addullah 3 Episode 6 By Hashim Nadeem
                                                                                         Download Episode 6 in PDF

اُس کا نام والدین نے بہت پیار سے ظہیر رکھا تھا، تین بیٹیوں کے بعد اکلوتا بیٹا، بہنوں کا بھائی بن کر دنیا میں آیا تو گھر میں خوشی کے شادیانے بجنے لگے۔ ماں باپ، بہنیں اُسے چوم چوم نہ تھکتے۔ وہ تھا ہی ایسا پیارا، معصوم، بڑی بڑی آنکھوں والا، جس کے کشادہ ماتھے ہی سے ذہانت جھلکتی دکھائی دیتی۔ اسکول، کالج اور یونی ورسٹی میں ہر مضمون میں اوّل، کھیل ہو یا تقریری مقابلہ، ڈراما ہو یا مشاعرہ، ظہیر ہر محفل کی جان ہوتا۔ انجینئرنگ مکمل کی اور پھر یونی ورسٹی کے وظیفے پر فزکس میں ماسٹرز بھی کرلیا۔ طبیعات اور مابعد الطبیعات اس کے پسندیدہ مضامین تھے اور اسے گولڈ میڈل بھی اسی مضمون میں ملا۔ لیکن وہ نہیں جانتا تھا کہ ایک دن گھر کا کرایہ چُکانے کے لیے اُسے وہی سونے کا تمغہ جوہری بازار لے جا کر بیچنا پڑے گا۔ یونی ورسٹی ختم ہونے کے بعد باہر کی دنیا اور مُلک کافرسودہ نظام نہایت بے رحم ثابت ہوا، نوکری کے لیےدربدر دھکّے کھاتے اس کے جوتے گِھسنے لگے، لیکن ہر اسامی پر کسی وزیر یا بڑے ا فسر کا سفارشی چُن لیاجاتا اور جو جگہ بچتی، وہاں منہ پھاڑ کر رشوت مانگی جاتی۔ ظہیر کی لیاقت، ڈگریاں کسی کام نہ آسکیں۔ گھر میں تین جوان بہنوں کی سوال کرتی نگاہیں اُسے چُبھنے لگیں۔ تبھی اُن کی گلی میں ایک روز تنظیم والے چندہ مانگنے آئے۔ ظہیر تو پہلے ہی بَھرا بیٹھا تھا۔ تُو تکار ہوگئی اور شکایت تنظیم کے بڑوں تک چلی گئی۔ ظہیر کو سرزنش کےلیےطلب کیا گیا، مگر ایک بڑےکوظہیرکےاندرجلتےالائو کی روشنی دکھائی دے گئی۔ ظہیر کو تنظیم میں شامل کر لیا گیا اور پھر جلد ہی وہ اپنی صلاحیتوں کی بدولت گلی سے محلے، اور اپنی سڑک سے ٹائون کے عہدے تک جا پہنچا۔ اُس کے بعد ضلعی سطح پر اس کا چنائو ہو گیا۔ گھر میں پیسا آنے لگا، جن نوکریوں کے لیےپہلے ظہیر دھکّے کھاتا پھرتا تھا اب وہی اسامیاں اُس کی ایک پرچی پراس کےمحلّے کےنوجوانوں اوررشتے داروں میں بٹنےلگیں۔ ظہیر کی شعلہ بیانی نے پہلی ہڑتال میں 13بسوں کو آگ دکھا دی، پھر تو اس کی ایک آواز پر شہر بند ہونے لگا۔ اب ظہیر ایک بڑا لیڈر بن چکا تھا،اس کی تنظیم میں مقبولیت عروج پر تھی۔ سب کو یقین تھا کہ اگلے الیکشن میں ظہیر صوبائی اسمبلی تک تو پہنچ ہی جائے گا، مگر ’’بڑوں‘‘ کو اب ظہیر کی یہ مقبولیت کھٹکنے لگی تھی، کیوں کہ اُن کے حساب سے ظہیر خود سر ہوتا جا رہا تھا، لہٰذا ظہیر کا شکنجہ کسنے کی تیاری شروع کردی گئی۔ اُس کے ذریعے شہر میں دوسری پارٹی کے خلاف ہڑتال کی کال دلوائی گئی اور اُسی رات شہر میں گیارہ بندوں کو مختلف علاقوں میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ بلوے اور فساد کا سارامدعاظہیر کے سرآیا۔ ایف آئی آر اُسی کے نام کاٹی گئی۔ پولیس حرکت میں آئی تو ظہیر نے تنظیم کے’’بڑے‘‘سے رابطے کی کوشش کی، مگر اس نےپھر ظہیر کی کال اٹینڈ ہی نہیں کی۔ ظہیر کو روپوش ہوناپڑا۔ یکے بعد دیگرے ایسے کئی اندھے خون اور قتل ظہیر کےکھاتے میں درج ہوتے گئے۔ تنظیم نے سرِعام ظہیر سے لاتعلقی کا نہ صرف اظہار کیا بلکہ درپردہ ظہیر کو ایک جگہ بلوا کر پولیس کے چھاپے کاانتظام بھی کروادیا۔ ظہیر گرفتار ہو گیا اور چھے ماہ کی سماعت کے بعد اُسے سزائے موت سنا دی گئی۔ وہ سمجھ گیا تھا کہ اس کےساتھ کتنابڑادھوکا ہواہے، مگراپنے گھر والوں کی زندگی کی خاطر اسے چُپ سادھنا پڑی۔
                                    مکمل قست پڑھنے کے لۓ ؒلنک پر کلک کرے
                Download PDF Addullah 3 Episode 6 By Hashim Nadeem


                                                                                      Download Episode 6 in PDF
  ABDULLAH 3 Episode 5 By Hashim Nadeem

                 (پانچویں قسط ) “III عبداللہ

         Download PDF Addullah 3 Episode 5 By Hashim Nadeem
                                                                                         Download Episode 5 in PDF


حضرت سلیمان علیہ السلام کا دربار لگا ہوا تھا۔ سب جن و انس، چرند پرند، ہوائیں تک مؤدب، ساکت کھڑے نئے حکم نامے کا انتظار کر رہے تھے۔ ہُد ہُد جو ملکہ صبا کے تخت کی خبر لایا تھا، اُس نے کن انکھیوں سے مور راجہ کی طرف دیکھا۔ سامنے خُوب صُورت نقّاشی والے اونچے عظیم ستونوں میں سے ایک پر دیمک کے کیڑے دَم سادھے بیٹھے تھے کہ ابھی شہتیر کھانے کا حکم نہیں ملا تھا۔ اچانک دربانوں میں کچھ ہلچل سی ہوئی اور باہر کسی بحث کی آوازیں اُبھریں۔ حضرت سلیمانؑ کی رُعب دا آواز گونجی ’’فریادی کو آنے دیا جائے۔‘‘ دربار میں داخل ہونے والا شخص سخت خوف زدہ تھا اور وحشت بھرے انداز میں بار بار بیرونی دروازے کی طرف دیکھ رہا تھا۔ حضرت کے استفسار پر وہ گِڑگِڑا کر بولا ’’حضور! میں نے شاید ابھی ابھی آپ کے دروازے پر عزرائیل علیہ السلام کو دیکھا ہے اور مجھے شک ہے کہ وہ میری ہی رُوح قبض کرنے یہاں آئے ہیں، لیکن میں ابھی مرنا نہیں چاہتا۔ آپ کے تابع تو سارا جہاں ہے، یہ جن و انس، یہ سرسراتی ہوائیں، آپ کسی کو حکم کیجیےکہ مجھے ابھی دنیا کے دوسرے سرے تک پہنچا دے، ہزاروں، لاکھوں مِیل دُور، قطب شمالی یا قطب جنوبی کے کسی سِرے پر۔ کہیں بھی، لیکن پلک جھپکتے کہ میں عزرائیل کا سامنا نہیں کرنا چاہتا۔‘‘ حضرت سلیمانؑ کے جلال کو فریادی پر رحم آ گیا اور ہوا کو حکم دیا کہ ’’یہ جہاں خود کو محفوظ سمجھے، اسے دنیا کے اُسی خطّے میں اتار دیا جائے۔‘‘ اور وہ شخص پلک جھپکتے ہوا ہوگیا۔ دو لمحے بعد عزرائیلؑ دربار میں حاضر ہوئے۔ حضرت سلیمانؑ نے مُسکرا کر پوچھا ’’یاعزرائیل! کیا بات ہے، کسی الجھن میں دکھائی دیتے ہیں؟‘‘ حضرت عزرائیلؑ نےجواب دیا ’’ہاں! ازل سے آج تک کبھی نہیں اُلجھا، پر آج دو لمحے پہلے آپ ہی کے دربار کے دروازے پر ایک شخص کو دیکھ کر پریشان ہوگیا کہ کہیں مجھے رُوح قبض کیےجانے والوں کی کوئی غلط فہرست تو نہیں تھما دی گئی۔‘‘ حضرت سلیمانؑ نے چونک کر پوچھا ’’کیوں، ایسا کیا ہوا؟‘‘ حضرت عزرائیلؑ بولے ’’میری فہرست کےمطابق مجھے اگلے لمحے جس شخص کی جان لینی تھی، اُسے اس وقت دنیا کے دوسرے سِرے پر ہونا چاہیے تھا، لیکن وہ مجھے آپ کے دروازے پر کھڑا نظر آیا، تو میں الجھ گیا لیکن کیا عجیب بات ہے کہ میں ٹھیک وقت پر جیسے ہی مقررہ مقام پر پہنچا تو میں نے اس شخص کو اُسی جگہ پایا، جہاں اس کی جان لینا طے تھا۔ سچ ہے، میرا رب بڑی طاقت والا ہے۔‘‘ صوفی رحمت اللہ نے اپنی بات ختم کی، تو قیدیوں پر ہُو کا عالم طاری تھا۔ آج بدھ کے روز پھر تبلیغی جماعت قیدیوں کو درس دینے آئی ہوئی تھی۔ صوفی صاحب نے گہرا سانس لیا ’’اس حکایت سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہر ذی رُوح کی موت کا ایک مقام مقرر ہے اور قدرت ٹھیک وقت پر اُسے وہاں پہنچانے کا ازخود انتظام کر دیتی ہے۔ یہ نادان انسان جتنا بھی دوڑنے، بھاگنے کی کوشش کر لے، موت اُسے اس کے مقررہ وقت اور مقام پرجا پکڑتی ہے اور تب تک موت خود زندگی کی حفاظت کرتی ہے۔ اگر اس ذی روح کا وقت مقررہ ابھی نہیں آیا تو اسے دنیا کی ساری طاقتیں مل کر بھی کوئی گزند نہیں پہنچا سکتیں۔‘‘ صوفی صاحب نے اپنی بات ختم کی تو میں نے قریب بیٹھے یوگی کی طرف دیکھا، جو میری ہی طرف دیکھ رہا تھا۔ کل ہی پاپا میری عُمر قید کی سزا، سزائے موت میں بدلے جانے کی خبر دینے آئے تھے۔ ایک باپ کے لیے اپنے بیٹے کو یہ خبر پہنچانا کس قدر اذیت ناک ہے، یہ صرف ایک باپ کا دل ہی جان سکتا ہے۔ غالب نے شاید میرے لیے ہی کہا تھا ؎ مجھے کیا بُرا تھا مرنا، اگر ایک بار ہوتا۔ ہم ایک بار بھلا مرتے کب ہیں۔ ایک بار تو صرف سانس رُکتی ہے، مرتے تو ہم ہر روز،ہرپل ہیں۔ ہر گھڑی، فنا ہمارا مقدر ہے۔ کبھی وقت کے ہاتھوں، کبھی حالات کے، تو کبھی رشتے، لوگ اور دنیا ہماری جان کے درپے ہو جاتی ہے۔ جیسے آج یہ قانون میری سانسوں کی گنتی ختم کرنے کا پروانہ جیلر کو پہنچا گیا تھا۔ بیرک میں یہ خبر پھیل چُکی تھی اور اب مجھے سزائے موت کےقیدیوں والےحصے میں منتقل کیےجانےکے انتظامات کیے جا رہے تھے۔ صوفی رحمت اللہ کو بھی نہ جانے یہ خبر کیسے مل گئی، شاید اِسی لیے جاتے جاتے، وہ دو گھڑی میرے پاس رُک گئے۔ ان کی پلکیں مجھے کچھ نم سی محسوس ہوئیں، ’’عبداللہ نام ہے ناں تمہارا۔ جانے کیوں کسی کا چہرہ دیکھ کر یقین ہی نہیں آتا کہ لوگ اُسے جس جرم سے منسلک کرتے ہیں، وہ اُسی سے سرزد ہوا ہے۔‘‘ میں دھیرے سے مُسکرایا۔ ’’شاید مجھے میری زندگی کا چھٹا اور آخری سِکّہ اِسی قید میں خاتمے کے لیے مِلا تھا۔‘‘ وہ اپنی آنکھیں پونچھتے آگے بڑھ گئے۔
                                    مکمل قست پڑھنے کے لۓ ؒلنک پر کلک کرے
                Download PDF Addullah 3 Episode 5 By Hashim Nadeem
                                                                                      Download Episode 5 in PDF

  ABDULLAH 3 Episode 4 By Hashim Nadeem

                 (چوتھی قسط ) “ III عبداللہ

         Download PDF Addullah 3 Episode 4 By Hashim Nadeem
                                                                                         Download Episode 4 in PDF


 ہم اتفاق رائے سے زندہ بچھڑ گئے.....اِک دوسرے کو مَرکے دکھانا نہیں پڑا۔ یوگی نےشعر پڑھ کےخود ہی زور سے قہقہہ لگایااور پھر خود ہی اپنا ماتھا پیٹتے ہوئے بولا ’’ہائے ری محبت … ہائے ری محبت…‘‘ مَیں نے بے زاری سے اُس کی طرف دیکھا۔ ’’یہ جیل توڑنے اور فرار کی بات کےبیچ محبت کہاں سے لے آئے، پہلے وہ بات ختم کرو، جو شروع کی تھی۔‘‘ مگریوگی مجھے دیکھ کے مُسکراتا رہا۔ ’’محبت کو میں بھلا کب بیچ لایا ہوں۔ محبت تو تمہارے ساتھ چلتی اس بیرک تک آئی ہے۔ زخمی محبت، گھائل محبت…‘‘ مَیں چُپ ہوگیا، یوگی ٹھیک ہی کہہ رہا تھا۔ ’’تم کچھ کہہ رہے تھے…؟‘‘ مَیں نےموضوع بدلنے کی کوشش کی۔ ’’ہاں، لیکن تم نے یہ نہیں پوچھا کہ اپنی زندگی کا اتنا بڑا راز اس بَھری جیل میں مَیں نےصرف تم ہی کو کیوں بتایا؟‘‘مَیں نے یوگی کی آنکھوں میں جھانکا۔ ’’کیوں کہ اس ساری جیل میں صرف ایک میں ہی تمہیں تمہارے کام کا بندہ دکھائی دیتا ہوں۔‘‘ یوگی زور سے ہنسا ’’ٹھیک کہا اور مَیں یہ بھی جانتا ہوں کہ تم وہ نہیں،جودکھائی دیتےہو۔ تمہاری یہ گہری خاموشی تمہارے اندر کی گہرائی کا پتا دیتی ہے اور مجھے تم جیسے کسی گہرے انسان ہی کی ضرورت تھی۔‘‘ ’’لیکن تم تو کہتےہو، یہ چھوٹی جیل باہر کی بڑی جیل سے کہیں بہتر ہے، پھر اس سے بھاگنا کیوں چاہتے ہو…؟‘‘ یوگی نےمیری بات سُن کر زور سے سر ہلایا، اس کی لَٹیں کُھل کرچہرے پہ پھیل گئیں، ’’نہیں، مَیں بھاگنا نہیں چاہتا۔ مَیں نے بہت پہلے حالات سے بھاگنا چھوڑ دیا تھا، مگر مجھے اپنے ایک دوست کے لیے یہاں آنا پڑا۔ اُسے موت کی سزا سنائی گئی ہے اور وہ اسی جیل کی ایک کال کوٹھری میں بند ہے۔ مَیں اُسی کی مدد کے لیے یہاں آیا ہوں۔‘‘ مَیں نہ چاہتے ہوئے بھی یوگی پر طنز کر بیٹھا۔ ’’تم شاید بھول رہے ہو کہ یہ اس مُلک کی سب سے مضبوط جیل ہے، جسےکبھی اس کےمحلِ وقوع اور جغرافیے کی وجہ سے ’’کالا پانی‘‘ کہا جاتا تھا۔ یہ کوئی معمولی تنکوں سےبنا گھروندا نہیں، جسے توڑ کر تم اپنے دوست کو یہاں سے بھگالے جائو گے۔‘‘ یوگی اطمینان سے سُنتا رہا، ’’تم ٹھیک کہہ رہے ہو… یہ انگریز کی بنائی سب سے پرانی جیل ہے۔ یہاں فرنگی دَور کےباغی سرداروں کو قید کیاجاتا تھا۔ شہرسےدُورمضافات میں بنی یہ جیل، اندرونی حفاظتی حصاروں کے علاوہ بیرونی طور پر بھی چاروں طرف سےقدرتی پہروں میں گِھری ہے۔ پچھلی جانب پہاڑ ہے، تو آگے ایک پرانی ندی کی کھائی۔ دائیں جانب تین میل کےفاصلے پر ایک قدیم ریلوے اسٹیشن اورپٹری ہے،تو بائیں جانب جہاں مرکزی گیٹ ہے، سنگینوں کے سائے اور خوف ناک پہرے دارؒ، جو اُڑتی چڑیا کے پَر گِن کر ٹھیک نشانہ اُس کے دل پر لگا سکتے ہیں۔ اِن سب باتوں کے باوجود مجھے اُمید ہے کہ مَیں اپنے دوست کو یہاں سے نکال لے جائوں گا اور جانتے ہو، میرے یقین کی وجہ کیا ہے؟‘‘ میں نے یوگی کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا، ’’کیا…؟‘‘ ’’اس جیل کا یہی آہنی پہرہ اور پہرے داروں کا یہ یقین کہ یہ جیل کبھی نہیں ٹوٹ سکتی۔ یہی میرے بھروسے کی وجہ ہے۔ جب کوئی بات انسان کے دل و ذہن میں پختہ یقین کی طرح ثبت ہوجاتی ہے، پھر وہ کہیں نہ کہیں اس کی طرف سے غافل ہونے لگتا ہے اور یہی سب سے ٹھیک وقت ہوتا ہے کاری ضرب لگانے کا۔‘‘ یوگی نے مجھے بتایا کہ وہ جیل کے نچلے عملے کا اعتماد کافی حد تک حاصل کرچُکا ہے اور اس نے ایک سنتری کے ذریعے جیل کا نقشہ حاصل کرنے کی تگ ودو بھی شروع کردی ہے۔ مَیں اس سنتری کو کئی بار آتےجاتے یوگی کےساتھ ہنستے بولتے دیکھ چُکا تھا۔
                                    مکمل قست پڑھنے کے لۓ ؒلنک پر کلک کرے
                Download PDF Addullah 3 Episode 4 By Hashim Nadeem
                                                                                      Download Episode 4 in PDF

 ABDULLAH 3 Episode 3 By Hashim Nadeem

                   (تیسری قسط ) “ IIIعبداللہ 

         Download PDF Addullah 3 Episode 3 By Hashim Nadeem

کچھ دیر ماحول پر گمبھیر سی خاموشی طاری رہی۔ کبھی کبھی سارے لفظ ہمارے اندر موجود ہوتے ہوئے بھی ترتیب پانے میں بہت وقت لے لیتے ہیں۔ ویسے بھی کہتے ہیں غم، دُکھ یا نقصان کی خبربہت ناپ تول کر سُنانی چاہیے۔ سو، وہ بھی بہت دیر، چُپ نظریں جھکائے کھڑےلفظ ناپتے تولتے رہے اور مَیں سُکون سے کھڑا زہرا کے ابّا کے بولنے کا انتظار کرتا رہا۔ اُنہیں بات کرنے میں مشکل ہو رہی تھی۔ تیسری بار پوچھ بیٹھے، ’’اور میاں! کیسے ہو…؟‘‘ میرا دل چاہا، کہوں ’’کئی سال سے قید ہوں، بے بس، بے چین ہوں، بہت اذیت میں ہوں۔‘‘ لیکن زبان سے وہی پُرانا جھوٹ نکلا، ’’ٹھیک ہوں۔ آپ فرمائیں کیسےآنا ہوا، وہ تو ٹھیک ہےناں؟‘‘ جانے کیوں، مگر میں اُن کے سامنے زہرا کا نام نہیں لے پاتا تھا۔ شاید ہر ادب کے کچھ الگ تقاضے ہوتے ہیں۔ وہ کچھ دیر چُپ رہے۔ ’’تم جانتے ہو وہ ٹھیک نہیں ہے۔ لیکن ایک جوان بیٹی کےباپ کو ہزار اطراف دیکھنا ہوتا ہے۔ مَیں کہنا نہیں چاہتا، مگر اُس کانام بہت رسوا ہو رہا ہے، تمہارے نام کے ساتھ۔‘‘ میں نے تڑپ کر اُن کی طرف دیکھا۔ بس یہی کسر باقی رہ گئی تھی۔ وہ میری کیفیت سمجھ گئے۔ ’’میں جانتا ہوں تم بے قصور ہو، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تمہیں عُمرقید ہوئی ہے۔ جانے یہاں سے باہر آتے تمہیں مزید کتنے سال لگ جائیں۔ تمہارے پاپا اپنی سی ہر ممکن کوشش کرچُکے، لیکن تمہارے تینوں حریف بہت زورآور، مال دار ہیں اور پتا نہیں یہ خبر تم تک پہنچی ہے یا نہیں کہ تمہارے والد اپنی ساری جائیداد، فیکٹریاں گرِوی رکھ چُکے ہیں۔ اِن چھے سات سالوں میں تمہارا کیس لڑنے اور تمہیں باہر لانے کی تگ و دو میں وہ اپنا سب کچھ لُٹا بیٹھے ہیں۔‘‘ مَیں چُپ رہا، میں پاپا کے حالات سے اچھی طرح واقف تھا، لیکن جانے آج وہ اتنی لمبی تمہید کیوں باندھ رہے تھے، جو کہنے آئے تھے، کہہ کیوں نہیں رہے تھے۔ کچھ دیر کے لیے خاموشی کا ایک اور وقفہ آیا، پھر بولے، ’’مَیں جانتا ہوں تمہیں میری بات سُن کر بہت دُکھ ہوگا۔ تم اُسے بہت چاہتے ہو۔ اُس کی اچھی زندگی، بہتری کے لیے کچھ بھی کرسکتے ہو اور وہ بھی تمہارے انتظار میں ساری عُمر گھربیٹھ سکتی ہے، لیکن… لیکن مَیں چاہتا ہوں کہ اب وہ اپنی نئی زندگی کے بارے میں سوچنا شروع کردے۔ آخر ہم کب تک اُس کےساتھ رہیں گے۔ اکیلی لڑکی کے لیے یہ معاشرہ کسی جہنم سے کم نہیں اور میرے اور اُس کی ماں کے پاس کتنا وقت رہ گیا ہے، ہم نہیں جانتے…‘‘ وہ بولتے بولتے پھر چُپ ہوگئے۔ کیا ستم تھا، وہ میری موت کی تصدیق بھی خود مجھ ہی سے کروانا چاہتے تھے۔ میرے لب ہلے، ’’آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ میں اُسے کبھی بھی زمانے کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑنا چاہتا۔ وہ بہت معصوم، بڑی نازک ہے، زمانے کے تھپیڑے نہیں جھیل سکتی۔‘‘ مَیں نے جیسے اُن کے دل کی بات کہہ دی تھی، فوراً بولے، ’’یہی تو مَیں کہہ رہا ہوں تمہارے باہر آنے کی کوئی ضمانت نہیں۔ دشمن تمہیں پھانسی کےپھندے تک پہنچانے کی سرتوڑ کوششوں میں مصروف ہیں۔ وقت اُن کا ہے۔ دولت، اختیار، طاقت اُن کے پاس ہے، ہر چیز تمہارے مخالف ہے۔ تم اندازہ لگاسکتے ہو، ایسے میں ایک باپ اپنی بیٹی کے مستقبل کے لیے کس قدر پریشان ہوسکتا ہے؟‘‘ مَیں نے اُن کی جُھکتی نظر سے نظر ملانے کی کوشش کی۔ ’’جی… میں سمجھ سکتا ہوں۔‘‘، ’’اِسی لیے مَیں آج یہاں تم سے یہ کہنے آیا ہوں کہ تم اپنی محبت کا واسطہ دےکراُسےنئی زندگی کی شروعات پر مجبور کرو، وہ تمہاری بات نہیں ٹالتی۔ شروع میں تم دونوں کو بہت تکلیف ہوگی، لیکن دھیرے دھیرے قرار آہی جائے گا۔ آخر لوگ مر بھی تو جاتے ہیں اس دنیا میں…‘‘ وہ بولتے بولتے چُپ ہوگئے۔ کبھی کبھی تیر انداز کو پتا نہیں چلتا کہ کب اُس کے ترکش کے سارے تیر ختم ہوچُکے، لیکن وہ لگاتار ایک ہی نشانے پر تاک تاک کر تیر چلائے جاتا ہے۔ یہ جانے بغیر کہ اس کا تو پہلا چلایا ہوا تیر ہی اُس کے شکار کے لیےجان لیوا ثابت ہوچکا۔ زہرا کے ابّا نے بھی اپنی کمان خالی کرکے ہی دَم لیا۔ ’’آپ جانتے ہیں ایسےحالات اورمواقع پہلے بھی کئی بار پیدا ہوچکے، لیکن وہ ہر بار ثابت قدم ہی رہی، پھر آپ کو ایسا کیوں لگتا ہے کہ اس بار وہ میری بات مان لے گی؟‘‘، ’’پہلے کی بات اور تھی، تب جیسا بھی تھا کبھی ہماری آس نہیں ٹوٹی۔ ہر پل ایسا ہی لگتا تھاکہ تم لوٹ آئو گے اورتب سلطان بابا کی دُعائیں، اُن کے وجود کا سایہ بھی تو تم پر گھنی چھائوں کیے رکھتا تھا، لیکن اب تو وہ بھی نہیں رہے۔‘‘ وہ ٹھیک کہہ رہے تھے۔ میری ہر اُمید، ہر آس سلطان بابا کے ساتھ ہی تو بندھی تھی
                                    مکمل قست پڑھنے کے لۓ ؒلنک پر کلک کرے
                Download PDF Addullah 3 Episode 3 By Hashim Nadeem
                                                                                      Download Episode 3 in PDF

  ABDULLAH 3 Episode 2 By Hashim Nadeem
               (دوسری قسط) “III  عبداللہ
                           Download PDF Abdullah 3 Episode 2
                                                                                                       Download Episode 2 in PDF


فائر کی زوردار آواز نے سنّاٹا چیر دیا
برستی بارش سے دونوں کے بہتے آنسوؤں کا بھرم قائم تھا
اِک دَربدر، خاک بسر… اور عشقِ مجازی سے عشقِ حقیقی تک کا سفرِ مسلسل
وہ تین لڑکے تھے، میری نظر فوراً اُن کی بائیکس کی طرف گئی، ہارلے ڈیوڈسن، ہایابُوسا اور شوگن… تینوں ہی قیمتی بائیکس تھیں۔ لڑکے حُلیے سے بھی عام چور اُچکّوں سے مختلف لگ رہے تھے۔ قیمتی جینزاور ہاتھوں میں پکڑے سگریٹ کی مہک بازاری تمباکو سے جُدا تھی، پھر یہ چوری، ڈاکا کیسا؟ میں اِن ہی خیالات میں اُلجھا ہوا تھا کہ اُن کا سرغنہ چلّا کہ بولا، ’’سُنا نہیں، نیچے اُترو… چلو، جلدی کرو…‘‘ زہرا کا رنگ خوف کے مارے سفید پڑنے لگا، کیوں کہ اس نے دوسری جانب کھڑے لڑکے کے ہاتھ میں 32بور کا خوف ناک پستول دیکھ لیا تھا۔ میں نے سُکون بحال رکھتے ہوئے ان سے کہا، ’’ تمہیں جو کچھ چاہیے، مَیں ویسے ہی تمہارے حوالے کرنے کو تیار ہوں، تم ہمیں جانے دو۔‘‘ وہ غُرّا کربولا، ’’لگتا ہے تمہیں سیدھی زبان سمجھ نہیں آتی، چُپ چاپ نیچے اُترجائو، ہمیں جو کچھ چاہیے ہوگا، ہم خود لیں گے…‘‘ زہرا کپکپاتی آواز میں بولی، ’’ساحر! اِن سے بحث مت کرو… جیسا کہتے ہیں، پلیز ان کی بات مان لو…‘‘، ’’ٹھیک ہے، لیکن تم اندر ہی بیٹھی رہنا… اپنی طرف کا دروازہ لاک کرلو… اور کچھ بھی ہوجائے…تم نیچے مت اترنا۔‘‘ میں زہرا کو ہدایت دے کر دھیرے سے دروازہ کھول کر باہر نکل آیا۔ گاڑی کی چابی مَیں نے غیر محسوس طور پر کار بند کرکے زہرا کے قدموں میں پھینک دی۔ وہ لڑکے شاید اناڑی اُچکّے تھے، اس لیے میری یہ حرکت نوٹ نہیں کرسکے۔‘‘ مَیں نے اپنی جیب سے والٹ، گھڑی اور فون وغیرہ نکال کرگاڑی کے بونٹ پر رکھ دیئے۔ ’’میرے پاس یہی کچھ ہے، تم چاہو، تو میری تلاشی لے سکتے ہو۔‘‘ ایک لڑکے نے دوسرے کی طرف دیکھ کر کمینی سی مُسکراہٹ سے کہا ’’اوئے سَنی… واٹ اِز دِس یار… یہ تو کوئی بات نہ ہوئی… اس نے تو چُپ چاپ سارا مال نکال دیا، تھوڑا سا تِھرل تو ہونا چاہیے تھا۔‘‘ اُن کا سرغنہ، سَنی جس کے ہاتھ میں پستول تھا، فلمی انداز میں پستول گُھما کر بولا ’’ ڈونٹ وَری… ابھی تِھرل کے لیے پوری رات باقی ہے بوائز…‘‘ سب لڑکے زور سےہنس پڑے۔ تو میرا خیال ٹھیک تھا۔ یہ عام روایتی چور اُچّکے نہیں تھے، مَیں نے اپنے حواس بحال رکھے۔ ’’تم لوگوں کو جو کچھ چاہیے تھا، وہ مَیں نے دے دیا ہے۔ چاہو تو میرے سارے کریڈٹ کارڈز اور اے ٹی ایم کا پِن بھی لے لو، لیکن اب ہمیں جانے دو۔‘‘ اِس سارے عرصے میں ان تینوں کی نظر گاڑی کے اندر بیٹھی زہرا کے سراپے کا طواف کرتی رہی۔ سَنی نے اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھا اور پھر میری طرف مُڑ کر معنی خیز لہجے میں بولا، ’’ڈیٹ سے آرہے ہو اِس وقت، یہ چیز توبڑی کمال بِٹھا رکھی ہے ڈُوڈ…‘‘ تینوں نے زور سے ایک قہقہہ لگایا۔ مَیں نے اپنےحواس بہ مشکل قابو میں رکھے، ’’وہ میری منگیتر ہے، تم مجھ سے بات کرو، مَیں تمہاری ہر ڈیمانڈ پوری کروں گا، جتنا پیسا چاہیے، ملےگا تمہیں۔‘‘ سَنی نے غور سے زہرا کی طرف دیکھا، ’’واہ بھئ… یہ آدھی رات کو اس ویرانے میں اپنی منگیتر کو لے کر گھومنے والا پہلی مرتبہ دیکھا ہے میں نے… کیوں سِڈ۔‘‘ وہ پھر زور سے ہنسے۔ سَنی نےغصّے سے چلّا کر کہا ’’اِس محترمہ سے بھی کہو کہ نیچے اترے۔ ذرا ہم بھی تو دیکھیں، تمہاری اس منگیتر گرل فرینڈ کو۔‘‘ سِڈ نامی لڑکا زہرا والی سائڈ کے دروازے کی طرف بڑھا۔ مَیں نے چلّا کر اُسے خبردار کیا ’’وہیں رک جائو…دروازے کو ہاتھ بھی مت لگانا۔‘‘ زہرا ڈر کر گاڑی میں مزید سمٹ گئی۔ مَیں تیزی سے سِڈ کی طرف لپکا۔ انہیں شاید میری طرف سے ایسی کسی حرکت کی ہرگز توقع نہیں تھی۔ سَنی زور سے چلّایا ’’اوئے کاشی! پکڑو اس پاگل کو۔‘‘ تیسرا لڑکا پستول نکال کر میری طرف لپکا۔ سِڈ نے اپنا پستول والا ہاتھ زور سے زہراوالی سائڈ کے دروازے پر دے مارا اور فضا شیشہ ٹوٹنے کے چھناکے سے گونج اٹھی۔ سِڈ نے اندر ہاتھ ڈال کر دروازے کا لاک کھولنے کی کوشش کی، لیکن اُس وقت تک میں اس کے سر پر پہنچ چُکاتھا۔ کہتے ہیں بہت زیادہ بہادری اور حماقت میں زیادہ فرق نہیں ہوتا، لیکن اُس وقت میرے پاس کوئی چارہ بھی تو نہیں تھا۔ زہرا زور سے چِلّائی۔ سَنی ہماری طرف لپکا، کاشی نے مجھے پیچھے کھینچنے کی کوشش کی، لیکن میں نے سِڈ کے پستول والے ہاتھ کی کلائی نہیں چھوڑی۔ ایک ہنگامہ سا مَچ گیا، وہ تینوں واقعی اناڑی لگتے تھے، ورنہ انہیں مجھ پر قابو پانے میں زیادہ دیر نہ لگتی۔ اُسی لمحے سِڈ مجھ سے بھڑگیا اور اُس نے خود کو مجھ سے چھڑوانے کے لیے ہر ممکن زور آزمائی شروع کردی۔ سَنی اور کاشی چلّارہے تھے اور پھر ٹھیک نیچے گرتے ہی فائر کی زوردار آواز نے سنّاٹے کو چیردیا۔ سِڈ کا ہاتھ گرتے گرتے بہک گیا اور ایک اور فائر ہوا، کاشی زور سے چلّایا ’’ اوہ نو… سَنی… میں نے اور سِڈ نے گھبرا کر سَنی کی طرف دیکھا، جو وہیں کھڑے کھڑے زمین پرگِرچکا تھا اور خون کا ایک چھوٹا سا تالاب اس کے اِردگرد اکٹھا ہونا شروع ہوگیا تھا۔ سِڈ نے گھبرا کر پستول میرے ہاتھ ہی میں چھوڑ دیا۔ کاشی بھی حواس باختہ ہوکر سَنی کی طرف لپکا۔ مجھے یاد آیا کہ آج شام مجذوب نے یہی تو کہا تھا مجھ سے کہ میں کسی اور کی موت کا وعدہ نبھانے جارہا ہوں…اُن دونوں کو میرا دھیان ہی نہیں رہا کہ اب پستول میرے ہاتھ میں بھی ہے۔ سَنی کی سانسیں تھم رہی تھیں۔ کاشی اور سِڈ نے گھبرا کر ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور تیزی سے اپنی اپنی بائیکس کی طرف لپکے، مَیں چلّایا، ’’رُکو…اِسے گاڑی میں ڈالنے میں میری مدد کرو…شاید یہ بچ جائے۔‘‘ لیکن وہ دونوں بائیکس کو کِک لگا کر یوں سرپٹ بھاگے کہ پیچھے پلٹ کربھی نہیں دیکھا۔ زہرا بہت ڈرگئی تھی۔ میں نے جلدی سے سَنی کی نبض چیک کی، زندگی کے آثار معدوم تھے، مَیں نے فوراً اپنے ایک پولیس آفیسر دوست، ایس پی کامران کو کال ملائی اور اُسے ساری صورتِ حال بتائی۔ کامران نے سختی سے کہا ’’تم وہیں ٹھہرو… اور دیکھو کسی چیز کو ہاتھ مت لگانا، مَیں ابھی ایمبولینس کے ساتھ وہاں پہنچتا ہوں۔‘‘
کامران کے آتے آتے دُور ساحل پر صبح کی سپیدی نمودار ہونے لگی تھی، لیکن کون جانتا تھا کہ ٹھیک اِسی وقت میری زندگی کی وہ طویل رات شروع ہونے والی ہے، جس کا خاتمہ آخرِکار سینٹرل جیل کی اِس سیلن زدہ بیرک میں ہونا تھا۔ سَنی کی میّت اسپتال پہنچا دی گئی اور سورج نکلنے سے پہلے ہی سارے شہر میں یہ خبر پھیل چُکی تھی کہ مُلک کے سینئر وزیر، سلمان دانش کا بیٹا، سَنی میرے ہاتھوں ماراگیا۔ شہر میں جیسے بھونچال سا آگیا تھا اور پاپااور ایس پی کامران کی لاکھ کوششوں کے باوجود شام سے پہلے ہی پولیس ہمارے دروازے پر موجود تھی۔اتنےبڑے سیاست دان کےبیٹےکاقتل کوئی معمولی بات تو نہیں تھی۔ سلمان دانش نے حکومت کے سب ایوان ہلا ڈالے تھے، پاپا کی پہنچ بھی بہت اوپر تک تھی، مگر سلمان کا پلڑا بھاری رہا۔ کوئی بھی یہ ماننے کو تیار نہیں تھا کہ سَنی اور اُس کے دوست اُس رات سڑک پر لُوٹ مار کے ارادے سے کھڑے تھے۔ پولیس، عدالت، وکیل، سبھی کا ایک ہی سوال تھا کہ اتنے بڑے گھر کے لڑکے کو کہ جس کے دن کا خرچہ لاکھوں میں تھا، کسی سے کچھ لُوٹنے کی کیا ضرورت تھی؟ کوئی یہ جان نہیں پایا کہ جب زندگی میں سب کچھ حاصل ہوجائے، تو ایک چیز کھو جاتی ہے اور وہ ہے، ’’امنگ.....‘‘ ان لڑکوں کے اندر امنگ ختم ہو رہی تھی، اور اُسے ہی جگانے،کچھ تِھرل یا ایڈونچر کی غرض سے وہ وہاں مورچہ لگائے کھڑے تھے۔ پاپا نے مُلک کے بہترین وکیلوں کا پینل میرے کیس کے لیے جمع کررکھا تھا، مگر سلمان دانش کو اپنے بیٹے کی موت کا بدلہ چاہیے تھا، کاشی اور سِڈ کے بیان بھی میرے خلاف تھے کہ مَیں نے زہرا کے ساتھ اُن لوگوں کا پیچھا کیا اور گاڑی سے اُترتے ہی دوفائر کیے، جن میں سے ایک سَنی کو جالگا۔ ہر چیز میرے خلاف جارہی تھی۔ مثلاً اتنی رات گئے مَیں اور زہرا اُس ویران سڑک پرکیا کررہے تھے؟ اگر وہ لڑکے لُوٹ مار کے ارادے سے کھڑے تھے، تو گولی ان ہی کے سرغنہ کو کیوں لگی؟ اگر اتفاقیہ حادثہ تھا، تو پھر دوگولیاں سَنی کی سمت کیوں چلائی گئیں۔ کاشی اورسِڈ کےباپ بھی کھرب پتی تھے اور سچّی گواہی کی صُورت میں اُن کے اپنے بیٹے پر قتل کا الزام آتا تھا۔ قتلِ عمد نہ سہی، قتلِ خطا ہی سہی… لہٰذا اُن دونوں خاندانوں نے بھی اپنا پورا اثرورسوخ مجھے سزا دلوانے پر صرف کردیا۔ پاپا تنہا ہوتے گئے۔ ہَٹ کےملازمین کے بیانات میں تضاد پیدا کر کے انہیں بھی مشکوک کردیا گیا، تاکہ اُن کی گواہی میرے حق میں نہ جا سکے۔ درپردہ میرے اپنے وکیلوں کو خرید کرمیرے کیس کو کم زور کیاجاتا رہا، حتیٰ کہ یہ بات بھی بھری عدالت میں گھڑلی گئی کہ دراصل سَنی زہرا کو پسند کرتا تھا، اُس کا رشتہ بھجوانے کی کوشش بھی کرچُکا تھااورمجھے اس بات کا قلق تھا،تو مَیں نے سَنی پرجذبۂ رقابت میں گولی چلائی۔ کتنی عجیب بات ہے، سچ کو بھی سچ ثابت کرنا، ان عدالتوں، کچہریوں میں کس قدر مشکل ہو چکا ہے۔ جب کہ جھوٹے گواہ، ثبوت اور الزام کتنی آسانی سے حق تسلیم کرلیے جاتے ہیں۔

ممّا اور پاپا ہر پیشی پر مجھے مزید کچھ نڈھال اور کم زور دکھائی دیتے۔ زہراشروع میں اپنے ابّا کے ساتھ چُپ چاپ سیاہ شال لپیٹے کمرئہ عدالت میں پیچھے کی بینچز پر بیٹھی مجھے تکا کرتی، بس اُس کی نم پلکیں اور بڑی بڑی سیاہ آنکھیں مجھ سے کلام کیا کرتیں۔ امجد اسلام امجد نے ٹھیک ہی تو کہا تھا کہ ؎ ’’تخلیے کی باتوں میں گفتگواضافی ہے‘‘ میرے اور زہرا کے درمیان بھی یہی معاملہ تھا، ہمیں باتیں اضافی لگتی تھیں، اور جب وہ میرے سامنے ہوتی، تب بَھرا ہجوم اور بھیڑ بھی میرے لیے تخلیہ بن جایا کرتی۔ لیکن جب سَنی کے وکیل نے بَھری عدالت میں مجھے قصوروار ثابت کرنے کے لیے زہرا کے کردار پر کیچڑ اچھالنا شروع کی، تو مَیں نے زہرا کےابّا کو پہلی مرتبہ بےچین دیکھا۔ وہ ایک شریف،وضع دار انسان تھے، جن کی پچھلی سات نسلوں نے بھی کبھی ان کورٹ کچہریوں کے معاملات نہیں برتے تھے۔ جہاں کسی عفّت مآب کی عزت اُچھالنا کسی اچھے وکیل کے پینتروں میں شمار ہوتاہے، وہ کیس جیتنے کے لیے کسی کی روح پر چاہے جتنےچرکے لگائیں، وہاں تماش بینوں کو صرف تالیاں بجانےسےغرض ہوتی ہے، گویا عدالت میں کیس نہیں لڑا جاتا، فقرے بازی کا مقابلہ ہوتا ہےاور مَیں زہرا کے ابّا کو اس فقرے بازی سے اذیت میں مبتلا دیکھ رہا تھا، لہٰذا مَیں نے انہیں زہرا کے ساتھ کمرئہ عدالت میں آنے سے منع کردیا۔ مجھے یاد ہے، اُس دن جب مجھے ہتھکڑیوں میں پیشی سے واپس جیل لےجایا جارہا تھا، وہ راہ داری کے ایک ویران گوشے میں کھڑی میرا انتظار کر رہی تھی۔ مَیں نے سنتری سےچند لمحے رُکنے کی درخواست کی۔ سنتری نے ایک پَل میری طرف دیکھا، پھر نہ جانے اُسے میرے چہرے پر کون سی تحریر لکھی نظر آئی کہ دھیرےسےمُسکرادیا۔’’کون ہےیہ تمہاری سائیں…؟ لُگائی ہےیاہونےوالی ہے؟‘‘اُس کےمعصومانہ سوال پر میں بھی مُسکرادیا، ’’یہ سب کچھ ہے میری… اور جس دن تمہارا قانون میری ہتھکڑیاں کھول دے گا، لُگائی بھی ہوجائے گی۔ تم ضرور آنا میری شادی میں۔‘‘ سنتری نے قہقہہ لگایا اور اپنے دو ساتھیوں کو لے کر ایک جانب ہوگیا۔ زہرا کی پلکیں لرز رہی تھیں۔ ممّا، پاپا اور اُس کے ابا ذرا فاصلے پر کھڑے ہماری طرف دیکھ رہے تھے۔ اتنے بہت سے ہفتوں کے بعد یہ ہماری پہلی براہِ راست ملاقات تھی۔ اس کے کومل لب دھیرے سے کانپے، ’’کیسے ہو صاحب…؟‘‘ ، ’’تم جیسا صاحبہ۔‘‘ اُس کی مُسکراہٹ شکستہ تھی، ’’پھر تو بہت اچھے ہو، لیکن بس اب یہ کھیل ختم کردو… مَیں ٹھیک نہیں ہوں… ہر روز کسی کرامت کی آس میں یہاں آتی ہوں، مگر …مایوس لوٹ جاتی ہوں۔‘‘ مجھے لگا، جیسے وہ کہہ رہی ہو کہ اب گھر چلو واپس کہ ہمارے نکاح کے انتظار میں چاند تاروں کی چمک ماند پڑنا شروع ہوگئی ہے۔ ’’پھول بازار‘‘ کے سارے گل فروش تمہارے سہرے میں پھول ٹانکنے کو دَم سادھے بیٹھے ہیں۔ کاری گر ریشم نہیں بُن رہے کہ میرا عُروسی جوڑا ابھی طے نہیں ہوا۔ وقت وہیں رُکا کھڑا ہے، تم آئو تو گھڑیاں اپنی رفتارپکڑیں…کیوں ستاتےہو تم ان سب کو صاحب؟ اُس کی آنکھیں چھلک پڑیں، آس پاس جیسے سب کچھ دُھل ساگیا۔ مَیں نے تڑپ کر اُسے روکا، ’’کہتے ہیں مریض اور قیدی کے سامنے حوصلہ نہیں چھوڑنا چاہیے لڑکی،کیسی طبیب اور ہمدرد ہو… اپنے بیمار کو رُلائوگی کیا…؟ مَیں کہیں بھی رہوں، تمہاری آنکھوں کی قید ہی میں رہوں گا اور صیاد پر لازم ہے کہ اپنے صید کی پوری دیکھ بھال کرے۔ جب تمہاری ان پیاری آنکھوں میں پانی آتا ہے، تو تمہاری پلکوں کی سلاخوں کے پیچھے بیٹھا یہ قیدی بھی بھیگنے لگتا ہے۔ اور تم تو جانو کہ جاڑے میں بھیگنا مطلب کھانسی، نزلہ، زکام، بخار یعنی علاج کا خرچہ الگ۔‘‘ وہ مُسکرادی، ’’باتیں خُوب بنالیتے ہو…‘‘ اُس کے مُسکرانے سے بارش کےبعدجیسے دھوپ نکل آئی۔
مَیں نے اسے تسلی دے کر رخصت کیا اور ساتھ یہ وعدہ بھی لیاکہ اب وہ عدالت کی کارروائی دیکھنے نہیں آئے گی۔ مَیں جانتا تھا کہ اُس نے کس بھاری دل سے میری یہ بات مانی ہوگی۔ ’’بہت ضدی ہو، ہمیشہ اپنی ہی منواتے ہو… مگر جب رِہا ہو کے واپس آو گے، تب صرف تمہاری صاحبہ ہی کی چلے گی، یاد رکھنا…‘‘جاتے جاتے اس نے راہ داری میں دوتین بار مجھے پلٹ کردیکھا۔ ہر بار اُس کی پلکیں مجھے پہلے سے زیادہ نم اور چمکتی ہوئی محسوس ہوئیں۔ مَیں وہیں کھڑا اُسے اپنے ابّا کے ساتھ جاتے دیکھتا رہا۔ راہ داری کے کنارے پر وہ ایک پَل کو رُکی اور لمحہ بھر کے لیے میری اور اس کی نظر ملی،تو اُس کی پلکوں کے موتی بولے، ’’الوداع…‘‘ میرا دل چاہا میں دیوانہ وار بھاگتے ہوئے اُس کےپاس جائوں اور اپنی ہتھیلیوں میں اس کی آنکھوں کےستارےجمع کرلوں، انہیں زمین پر گرنے نہ دوں۔ اس کے ہاتھ تھام کرکہوں ’’پریشان کیوں ہوتی ہو، مَیں ہوں ناں…سب ٹھیک کردوں گا۔‘‘ لیکن میں کچھ بھی ٹھیک نہیں کرپایا۔ کبھی کبھی ہم کسی کرامت کے انتظار ہی میں بیٹھے رہ جاتے ہیں۔ ہم بھولے انسان یہ بھی نہیں جانتے کہ کرامات ہماری مرضی اور اختیار کے تابع نہیں ہوا کرتیں۔ پاپا کی ساری تدابیر اور تراکیب دَھری کی دَھری رہ گئیں اور چھے ماہ کی مسلسل بحث، پیشیوں کے بعد بالآخر عدالت نےمجھے عُمرقید کی سزا سُنادی۔ گویا اب جو عُمر بچی تھی، وہ قید میں بسر ہوگی۔ مَیں یہ جیل اورقید کا نظام کبھی سمجھ ہی نہیں پایا۔ ایک ہماری ہی طرح کا انسان، سیاہ چُغہ پہن کر اپنے ہی جیسے کسی انسان کو عُمر بھر کےلیے سلاخوں کے پیچھے قید رکھنے کاحکم کیسے دے سکتا ہے؟ صرف اس لیے کہ وہ منصب کی کرسی پر بیٹھا ہے؟ بات اگر سزا اور جزا کی ہے، تو پھر انصاف کا معاملہ انسان اور فرشتے کے درمیان طے ہوناچاہیے۔ انسان ہی انسان کو سزا کیسے دے سکتا ہے؟ دونوں ہی کم زور، دونوں ہی مصلحتوں کے مارے، مشکوک، سزاوار، کھوٹے، گناہ گار۔ میری سزا سُنتے ہی پاپا وہیں عدالت میں کرسی پر ڈھے سے گئے اور ممّا کچھ اس طرح بستر پر گریں کہ پھر کبھی اُٹھ نہ پائیں۔ پاپا نے مجھے تسلّی دی ’’تم فکر نہ کرو، میں ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ جائوں گا۔ ابھی سب دروازے بند نہیں ہوئے۔‘‘ مَیں نے انہیں تسلّی دینے کے لیے اُن کے ہاتھ تھام لیے، لیکن میں انہیں یہ نہیں کہہ سکا کہ یہ اوپر کی عدالتیں سیٹھ سلمان کے لیے بھی اتنی ہی کُھلی ہوئی ہیں، جو میری عُمرقید سے مطمئن نہیں۔ اس کی خواہش تو مجھے سُولی پر لٹکتا دیکھنے کی تھی۔ اُس نے عدالت کے باہر جمع صحافیوں کے سامنے ہی اعلان کردیا تھا کہ وہ مجھے موت کی سزا دلوانے کے لیے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرے گا۔ ممّا، پاپا عدالت سے جیل جاتے وقت روتے ہوئے مجھ سے لپٹ گئے۔ زہرا اپنے ابّا کے ساتھ کچھ فاصلے پر کھڑی روتی نظروں سے مجھے دیکھتی رہی، جیسے کہہ رہی ہو ’’بہت ستاتے ہو مجھے صاحب! کہا تھا ناں، بس کردو اب واپس آجائو۔‘‘ لیکن میں اُسے کیا بتاتا کہ سلطان بابا کے جانے کے بعد میری زندگی سے جیسے سب ہی کرامات، کرشمے روٹھ سے گئے تھے۔ مجھے سینٹرل جیل پہنچا دیا گیا۔ سیٹھ سلمان دانش اور پاپا دونوں ہی میری سزا کے خلاف سپریم کورٹ چلے گئے۔ ممّا بسترسےجا لگیں، پاپا جب بھی مجھ سے ملنے آتے، مَیں اُن کی آنکھوں میں ممّا کے کرب واذیت کی ایک نئی کہانی پڑھتا۔ ہفتے، مہینے اور مہینے سالوں میں بدلتے گئے۔ پھر ایک روز خبر آئی کہ ممّا اب ہمارے درمیان نہیں رہیں، مجھے چند گھنٹوں کے پیرول پر ان کی تدفین میں شرکت کی اجازت ملی تھی۔ جیل سے سیدھے قبرستان پہنچایا گیا۔ ممّا بہت سُکون سے لیٹی ہوئی لگ رہی تھیں، جیسے ابھی ابھی ان کی آنکھ لگی ہو، مجھے تو ان کے چہرے پر ہلکی سی مسکان بھی دکھائی دی، جیسے انہیں پتا ہو کہ اُن کا لاڈلا ساحر اُن سے ملنے کے لیے ضرور آئے گا۔ آس پاس لوگ کچھ عجیب وغریب سی باتیں کررہے تھے۔ ’’صبرکرو بیٹا، قسمت کو یہی منظور تھا، وہ یہاں سے بہت اچھی جگہ چلی گئی ہیں۔ اب وہ جنّت میں تمہارا انتظار کرتی ہوں گی۔‘‘ میرے ذہن میں ایک عجیب سا سوال ابھرا، اگر اُن کا مجھ جیسا ناخلف بیٹا اگلے جہاں میں جنّت کا حق دار ہی نہ ٹھہرایا گیا تو…پھر میری ان کی ملاقات دوبارہ کیسے ہوگی؟ جن کی مائیں انہیں چھوڑ جاتی ہیں، ان بچّوں کی سانس کی ڈوری کیسے جُڑی رہ جاتی ہے۔ وہ جس کی کوکھ میں سانسوں کا یہ رشتہ جُڑتا ہے، جب اُس کی سانسیں تھم جائیں، تو اس کے وجود کا ٹکڑا، اُسی جسم کا ایک حصّہ اپنے پھیپھڑوں میں ہوا کی روانی کیسے برقرار رکھ پاتا ہے؟ اُس روز مجھے پتا چلا کہ سانس لینا ایک الگ چیز اور جینا کچھ الگ بات ہے۔ وہ سب ہی جو سانس لیتے ہیں، ضروری نہیں کہ وہ زندہ بھی ہوں، جیسے اس وقت میں اور پاپا۔ ہم دونوں کی صرف سانسیں ہی چل رہی تھیں، ہم بھلا زندہ کب تھے۔ تدفین کے بعد مجھے دوبارہ زنداں میں پہنچا دیاگیا۔ پلٹتے وقت جب میں نے پاپا کو گلے لگایا، تب ہی میرے دل نے مجھ سے کہہ دیاتھا کہ اب ان کا دل بھی اس جسمِ ضعیف کا زیادہ عرصے تک ساتھ نہیں نبھا پائے گا۔ قبرستان سے لوٹتے وقت بارش شروع ہوچُکی تھی۔ دُور ایک درخت کی چھتری سے ٹپکتی بوندوں سے پرے مجھے زہرا سیاہ شال لپیٹے کھڑی نظر آئی۔ وہ یک ٹک مجھےدیکھتی رہی، برستی بارش اور بھیگے چہروں نے ہم دونوں کے بہتے آنسوئوں کا بھرم قائم رکھا اور میں قیدیوں کی گاڑی میں چڑھ گیا۔
اب مَیں نے دن، ہفتے، مہینے کا حساب رکھنا چھوڑ دیا تھا۔ پھر ایک روز سنتری میرے پاس آیا ’’کوئی نیا بندہ تم سے ملنے آیا ہے۔‘‘ میں ملاقاتی کمرے کی جالی سے پرےجا کھڑا ہوا۔ تب ہی آنے والے کے قدموں کی گونج اُبھری۔ مَیں اس مُلاقاتی کی آمد کا بہت پہلے سے انتظار کررہا تھا، آخر وہ لمحہ آہی گیا تھا۔ وہ دھیرے سے بولے، ’’کیسے ہو…؟‘‘ 
(جاری ہے)

PDFURDUDUNYA.BLOGSPOT.COM

                                  Download PDF Abdullah 3 Episode 2
                                                                                                    Download Episode 2 in PDF






    ABDULLAH 3 Episode 1 By Hashim Nadeem


عشقِ مجازی سے عشقِ حقیقی تک یہ ایک سفرِ مسلسل ہے۔ اس دنیا کے بالکل متوازی چلتی ایک دوسری دنیا کے کئی سربستہ رازوں، بھیدوں، اسرار و رموز کا پردہ چاک کرتے اس ناول کا مرکزی خیال اور بنیادی پلاٹ آج بھی وہی ہے کہ ’’جب جب، جو جو ہونا ہوتا ہے، تب تب سو سو ہوتا ہے۔‘‘ ناول کے مرکزی کردار، نوجوان، ’’عبداللہ‘‘ کا سفرِ مسلسل اُسے جس ’’جہانِ تصوّف‘‘ سے روشناس کرواتا ہے، اُس میں ہر واقعے کی کڑی، دوسرے سے مربوط نظر آتی ہے اور تمام واقعات کا تسلسل یہی درس دیتا ہے کہ ’’وہ جو ہماری شہ رگ سےبھی قریب ہے، وہی سب کا حبیب ہے اور ہم سب کو یہاں کسی خاص مقصد کی کھوج اور تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہے‘‘ تو حاضر ہے، عبداللہ کے نئے سفر کا پہلا پڑائو۔ پڑھیے اور سر دُھنیے۔ ہمیں 
اپنی آراء سے آگاہ کرنا ہرگز مت بھولیے گا۔


                  (پہلی قسط) “ III عبداللہ
                      Download PDF Addullah 3 Episode 1 By Hashim Nadeem
                                                                                                                   Download Episode 1 in PDF

رومی نے کہا تھا کہ ’’مَیں نے بس اتنا جانا ہے کہ ہر ذی روح کو موت کا مزہ چکھنا ہوگا، البتہ اُن میں چند ہی زندہ وہ ہوں گے، جو جینے کا لُطف بھی محسوس کر پائیں گے۔‘‘ اب جانے میرا شمار کس قطار میں ہوتا تھا۔ ہاں، صحرا میں کھڑی اِس درگاہ کے دروازے پر لمبی لمبی قطاریں ہی تو بنی ہوئی تھیں، سائل پریشان حال لُٹے پِٹے اپنی اپنی مَنتّوں کی گٹھریاں اپنے کاندھوں پر اٹھائے جانے کب سے تپتی دھوپ میں کھڑے اپنی باری کا انتظار کررہے تھے۔ درگاہ کے صحن میں اپنے آپ میں گُم مجذوب نے جھٹکے سے سراٹھایا اور ہم سب پر ایک نگاہِ بے نیاز ڈالی۔ تیز ہوا چلی، تو درگاہ کے صحن میں گِرے خشک پتّے میری زرد سوچوں کی طرح بکھرنے لگے، لمبی لَٹوں والے درویش نے سراٹھایا، ’’جانتی ہو دنیا میں ہوس کی بہت سی اقسام ہیں، مگر اُن میں سب سے زیادہ مہلک قسم وہ ہے، جسے دونوں فریق آخر تک محبت سمجھتے رہتے ہیں۔‘‘ درویش کے قدموں میں بیٹھی لڑکی ہاتھ جوڑ کر روپڑی، ’’میں صدیوں کی مسافت طے کر کے یہاں تک پہنچی ہوں صاحب! مجھے یوں نہ دھتکارو۔‘‘ لڑکی کے جُڑے ہاتھوں سے کنگن چَھن کی آواز کے ساتھ اُس کی نازک کلائیوں تک نیچے ڈھلک آئے۔ سُنا تھا عشق گھائل کرکے ادھ مَرا چھوڑ دیتا ہے، مگر ہجر ہمیں لاغر کرتے کرتے رگوں سے زندگی کی آخری بوند تک نچوڑ لیتا ہے۔ اُس کے ڈھیلے کنگن اس کے ہجر کی داستان سُنارہے تھے۔ وہ پھر گِڑگڑائی، ’’اُسے پانے کے لیے میں ہر منّت چڑھانے کو تیار ہوں۔ کہو تو قونیا چلی جائوں۔ رومی کے مزار پر، یا سورج والے شمس تبریز کی زیارت کر آئوں۔ جوتم کہو سائیں۔‘‘ مجذوب نے لڑکی کی ڈوبتی آنکھوں میں جھانکا۔ ’’اِس کائنات کی سب سے قدیم اور مقدّس ترین درگاہ توتم اپنے ساتھ لیے پھرتی ہو، جہاں یہ سارے رومی، شمس، مجذوب اور ولی تمہیں جمع ملیں گے۔ پھر بھلا دربدر بھٹکنے کی کیا ضرورت ہے۔ بس دن میں ایک بار اِسی درگاہ کی زیارت کرلیا کرو۔ ساری مَنتّیں پوری ہوجائیں گی۔‘‘ وہ حیرت سے بولی، ’’ایسی کون سی درگاہ ہے صاحب…؟‘‘ درویش کے لب سرسرائے، ’’تمہارا دل۔‘‘ لڑکی روتی ہوئی وہاں سے پرے سِمٹ گئی۔ اب میری باری تھی۔ ملنگ نے بے نیازی سے پوچھا، ’’ہاں بولو، تم کیوں دربدر بھٹک رہے ہو؟ تمہیں کسی ایک جگہ ٹِک کر چین کیوں نہیں آجاتا۔‘‘ میری آواز بلند ہوگئی، ’’کیوں کہ مَیں کسی کی تلاش میں ہوں۔ وہ کہاں کھوگئی ہے، کیا میرا جذبہ سچا نہیں ہے یا پھر یہ بھی میری ہی بصارت کا قصورہے؟‘‘ مجذوب غصّے سے چلّایا، ’’کس بصارت پر غرور کرتے ہو۔ بس یہ دو آنکھیں، جو چند گز پرے بنی اِس دیوار کے پار بھی نہیں دیکھ سکتیں، جو خود روشنی کی محتاج ہیں اور ذرا سے اندھیرے میں اندھی ہوجاتی ہیں۔ بس، یہی بصارت ہے تمہارے پاس۔ عشق کُھلی آنکھ والوں کا کھیل نہیں۔ آنکھیں تو بس جسم ہی کو کھوج سکتی ہیں۔ اُس کو تلاشنا ہے،توآنکھیں بند کرکےڈھونڈنا سیکھو۔ بند آنکھ سےدیکھنے والے فلک سےسمندروں کے فرش تک سب دیکھ لیتے ہیں۔ اُن کے سامنے دنیا کے یہ سب بینا، نابینا ہیں۔ تم بھی اس ظاہری دنیا کے متوالے ہو۔ جائو چلے جائو یہاں سے۔ پہلے اپنی بصارت کا علاج کرائو۔‘‘ درویش نے مجھے زور سے دھکا دیا اور میں پھسل کر خشک کنویں کی منڈیر سے نیچے گہرائی میں گرتا چلاگیا۔ تب ہی میری آنکھ کُھل گئی۔
   
سینٹرل جیل کے سنتری نے جیل کے گھنٹے پر چار ضربیں لگائیں ’’ٹن،ٹن،ٹن،ٹن‘‘ مطلب جیل کے گجر نے چاربجنے کا اعلان کردیا تھا۔ مَیں خواب سے جاگا، توجسم پسینے سے شرابور تھا۔ پچھلے سات سال سے مَیں اس جیل میں قید تھا اور اِن سات سالوں میں شاید ہی کوئی رات ہو، جب میں نے یہ خواب نہ دیکھا ہو۔ اچانک پرلی طرف سزائے موت کے قیدیوں والی چار دیواری میں سےکسی قیدی نےتان لگائی ؎ یارا عشق جِنھاں نوں لگ جاندے.....حال پُچھ نہ اُنہاں دیوانیاں دے.....قیدی عشق دے بگّے نہیں چُھٹ دے.....قیدی چُھٹ جاندے نے جیل خانیاں دے۔
جانے وہ کون تھا، عشق کا اسیرتھا یا صرف اُس جیل کا قیدی؟ بس اتنا پتا چل سکا تھا کہ کوئی ’’بگھّا‘‘ نامی قیدی تھا، جسے گزشتہ سال ہی سزائے موت سُنائی گئی تھی اور اب وہ اپنی پھانسی کے انتظار میں سزائے موت کی کوٹھریوں میں سے کسی ایک کوٹھری میں اپنی زندگی کے آخری دن کاٹ رہاتھا۔ کتنا عجیب انتظار تھا، بھلا موت کا بھی کوئی انتظار کرتا ہے۔ یہ ہنر تو البتہ عشّاق سے منسوب ہے، جو اپنے محبوب کی آمد کی آس میں ساری عُمر سولی سے لٹکے رہتے ہیں۔ مجھے جیل آنے کے بعد پتاچلا کہ جیل کے دن، برس اور رات، صدیوں سے لمبی ہوتی ہے۔ پل جیسے گھنٹے اور گھنٹے، مہینوں کی طرح گزرتے ہیں۔ بیرک کی دیواریں، لوہے کی جالی اور سلاخیں لگے روشن دانوں سے اندر آنے والی قیدیوں کے حصّے کی چارخانہ دھوپ دیوار سے سرکائے نہیں سِرکتی۔ شاید قیدی کے لیے وقت کا پیمانہ بھی بدل دیاجاتا ہے تاکہ اذیّت اور تنہائی کا احساس دوگنا، چارگنا ہوتا رہے اور انتظار کا تو براہِ راست تعلق ہی وقت سے جُڑا ہے۔ پھر چاہے انتظار موت کا ہو یا اپنے محبوب کا۔ وقت، لمحے، گھڑیاں سبھی جلاّد کا رُوپ اختیار کرلیتے ہیں، ستم گربن جاتے ہیں۔ قیدی کی سزا بھلا صرف قید ہی کب ہوتی ہے؟ ایسی کئی اَن دیکھی اذیّتیں اور عذاب اُس کا مقدر بن جاتے ہیں۔ گویا سارا زمانہ ہی اُس کا بیری ہوجاتا ہے۔
مَیں اس بڑی جیل تک کیسے پہنچا اور یہ جگ میرا دشمن کب ہوا۔ یہ بھی ایک لمبی کہانی تھی، کون جانتا تھا کہ وقت ایسی کروٹ لے گا اور سارے اپنے بچھڑ جائیں گے۔ مقدر ہمیشہ بے خبری ہی میں وار کرتا ہے، جب ہمیں لگ رہا ہوتا ہے کہ سب ٹھیک ہوچلا ہے۔ کہتے ہیں عقل مند دشمن یلغار کے لیے علی الصباح حریف فوجوں پر چڑھائی کرتے ہیں، جب وہ ساری رات کی تھکن کے بعد ذرا دیر کو آنکھیں مُوند لیتے ہیں۔ میری بربادی کا آغاز بھی رات کے اُسی پہر سے ہوا تھا، جب رات فجر سے ملنے کو تھی۔ وہ میرے ساتھ تھی، وہی جسے میں نے ایک بار درگاہ کی سیڑھیاں چڑھتے دیکھا تھا اور اُسی لمحے میرا دل خود ایک درگاہ میں تبدیل ہوگیا تھا۔ مَنتّوں،مُرادوں والی درگاہ، عرضیاں ڈالنے والا مزار، بھینٹ چڑھانے والی خانقاہ۔ میرا دل بھی اسی زیارت کی بھینٹ چڑھ گیا اور میں نے سارے زمانے سے لڑ کر اسےجیت ہی لیا۔ جوگی بنا، بنجارا ہوا، فقیر بنا، آوارہ ہوا، مگر دل کو اُسی کی دُھن پرسر دھننا آتا تھا۔ اُس روز وہی میرے ساتھ تھی، ہاں وہی زہرا، اِن چار حروف سے میرے دل کے اندر پَل بھر میں ہزاروں چاند جانے کیسے اور کیوں روشن ہوجاتے تھے۔ میں یہ راز کبھی جان نہیں پایا۔ میری اور زہرا کی رخصتی طے ہوچکی تھی اور بس چند روز میں ہی اس کی ڈولی میرے آنگن میں اترنے والی تھی۔ مجھے یاد ہے، اُس دو فروری کی شام، مَیں درگاہ سے نکلنے لگا، تو بہت تیز ہوا چل رہی تھی۔ مَیں گھر کے بجائے زیادہ تر درگاہ ہی پر وقت صرف کرتا تھا، کیوں کہ حاکم بابا اور مولوی خضر کے جانے کے بعد ساری ذمّے داریاں میرے ہی سَر تھیں۔ جانے اُس روز موسم کے تیور مجھے بدلے بدلے کیوں دکھائی دے رہے تھے۔ شاید کچھ ’’اَن ہونیاں‘‘ موسم کے مزاج بھی بدل سکتی ہیں۔ مَیں نے درگاہ کے دروازے کی طرف قدم بڑھایا ہی تھا کہ ایک گرج دار سی آواز سُنائی دی۔ ’’کہاں جارہے ہو؟‘‘ میں نے پلٹ کر دیکھا، لمبی لَٹوں اور دُھول میں اَٹا ایک مجذوب صحن میں جانے کب سے بیٹھا اپنے منکے اور مالائیں جھنکا رہا تھا۔ ’’کسی سے ملنے کا وعدہ ہے آج رات، وہاں جارہا ہوں۔‘‘ میرا جواب سُن کر اسے جلال سا آگیا، ’’مت جائو، وہ تمہارے تعاقب میں ہے۔ ہر پَل، ہرگھڑی۔‘‘ مَیں نے حیرت سے مجذوب کو دیکھا، ’’کون ہے میرے تعاقب میں…؟‘‘، ’’وہی، جس سے دشمنی ادھوری چھوڑ آئے تھے پردیس میں۔ ادھوری دشمنیاں کبھی کبھی پوری قضا بن کر لوٹ آیا کرتی ہیں۔‘‘ مَیں جلدی میں تھا، اِس لیے سمجھ نہیں سکا، ’’لیکن میرا جانا ضروری ہے، کسی سے وعدہ کربیٹھا ہوں۔ وہ میرا انتظار کرتی ہوگی اور مَیں وعدہ خلافی کر نہیں سکتا۔‘‘ مجذوب نے میری بات سُن کے کہا، ’’تم اُس سے نہیں، کسی کی موت سے کیا وعدہ نبھانے چلے ہو۔ اچھا ضد کرتے ہو، تو یوں ہی سہی، جائو، مگر ایک بات یاد رکھنا، وہ جو پردیس میں چُھپا بیٹھا ہے، وہ بڑا مداری ہے اور مداری اپنا کھیل شروع کرچکا ہے۔‘‘ مَیں الجھن زدہ سا باہر نکل آیا، لیکن گھر جاتے وقت زہرا سے ملنے کی خوشی نے میرے سارے وسوسے دھو ڈالے۔ یہ محبت بھی کیا بلا ہوتی ہے، کوئی وسوسہ، کوئی خدشہ، کوئی وہم اس کی سرشاری ختم نہیں کرسکتا۔ محبت سے بڑا جادو اور کیا ہوگا بھلا…؟
مَیں اکثر سوچا کرتا تھا کہ شادیٔ مرگ کِسے کہتے ہوں گے، کوئی بھلا خوشی سے بھی مرسکتا ہے؟ مارتا تو غم ہے، لیکن اُن دنوں مجھے ایسا لگنے لگا کہ جیسے مجھے اس لفظ کا مطلب سمجھ آنے لگا ہے اور مَیں بھی ڈرنے لگا تھا کہ کہیں اُس کے میرے ہوجانے سے پہلے ہی میرا دل خوشی سے پھٹ نہ جائے۔ جانے قدرت نے ہمارا دل اتنا نازک بنایا ہی کیوں تھا؟ جن چیزوں پر سکت سے زیادہ بوجھ ڈالنا مقصود ہو، انہیں تو دگنا مضبوط جوڑا جاتا ہے، مگر میرا دل تو بے چارہ اکہرا تھا۔ اتنی خوشی کا بوجھ کیسے سہہ پاتا…؟ ہم دونوں کے خاندان بھی بہت خوش تھے۔ ممّا،پاپا کا تو بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ چاند، تارے آسمان سے اتار کر ہماری کوٹھی سجادیں۔ زہرا کے ماں باپ شادی اور رخصتی سے پہلے اس کے گھر سے زیادہ نکلنے کو پسند نہیں کرتے تھے، خود زہرا بھی کسی بدشگونی سے ڈرتی تھی۔ اور مجھ سےہمیشہ یہی کہتی رہی کہ اب ہم رخصت ہونے کے بعد ہی ملیں گے، لیکن میرا یہ نادان دل بھلا ایسی بدشگونیوں کو کب مانتا تھا۔ دل کے اپنے شگن ہوتے ہیں اور اپنی ہی رسمیں۔ سو، میرا دل بھی ضد کر بیٹھا تھا کہ اپنی سال گرہ والی رات مجھے زہرا سے ضرور ملنا ہے، جس کے لیے میرا جنم ہوا تھا۔ اپنے جنم دن پر اسی سے ملاقات نہ ہوئی، تو بھلا سال گرہ کیسی؟ زہرا نے منع کیا، اُس کی ماں نے ٹوکا اور اُس کے ابّا نے بُرا منایا، پر میری ضد کے آگے سبھی کو ہارماننا ہی پڑی اور دوفروری کی رات، مَیں اُسے کیک کاٹنے کے لیے رات بارہ بجے اُسی ساحلی ہَٹ میں لے آیا، جہاں ہم پہلے بھی ایک آدھ بار آچکے تھے۔ زہرا کو یہاں کا سُکون اور اونچائی سے سمندر کا نظارہ پسند تھا۔ مجھے یاد ہے، اُس رات اس نے میری فرمایش پر وہی دھانی ستاروں والی سیاہ ساڑی پہن رکھی تھی، وہ میری جوگن تھی اور میں اُس کا۔ مگر میرایہ نادان دل یہ نہیں جانتا تھا کہ عشق ناگ کے جوڑے کو آج تک کوئی جوگی بھی قابو نہیں کر پایا۔ جیسے ہی سپیرے کا دھیان بٹتا ہے، ٹھیک اُسی لمحے یہ زہریلے ناگ اُسے ڈس لیتے ہیں۔ کیک کٹنے کے بعد ہم بہت دیر وہیں بیٹھے آنے والے دِنوں کی باتیں کرتے رہے اور پھر زہرا کو ہی اپنی نازک کلائی پر بندھی گھڑی دیکھ کر گزرتے وقت کا خیال آیا۔ رات بہت بیت چکی تھی اور ہمیں یہاں سے گھر پہنچنے میں بھی کافی وقت مزید لگنا تھا، لہٰذا بادل نخواستہ میں نے بھی واپسی کی ہامی بھرلی۔ یہ ہَٹ پاپا کے کسی بزنس مین دوست کاتھا اور رات گئے تک سارا عملہ ہماری خدمت کے لیے وہیں موجود رہا۔ میں نے واپسی پر ہَٹ کے کیئرٹیکر اور باقی عملے کے لیے جیب میں موجود ساری رقم نکال کر مینجر کی ہتھیلی پر رکھ دی۔ اُس نے مجھے پیش کش کی کہ رات بہت ہوچکی ہے، ہَٹ کے عملے کی گاڑی بھی وہ ہمارے ساتھ ہی روانہ کرناچاہتا ہے، تاکہ وہ ہمیں شہر کی حدود تک چھوڑ کر واپس لوٹ آئیں، لیکن میں نے منع کر دیا اور مَیں زہرا کے ساتھ اپنی جیگوار میں وہاں سے نکل آیا۔ مَیں نے کار کی رفتار بڑھائی، تو زہرا نے ہلکا سا احتجاج کیا، ’’ کیا جلدی ہے صاحب…؟‘‘ مَیں ہنس پڑا۔ یہ لڑکیاں کبھی اپنے دل کی پوری بات کسی پر ظاہر نہیں ہونے دیتیں، کہاں تو اسے گھر واپسی کی جلدی پڑی تھی۔ اور کہاں یہ تھم کر چلنے کی فرمایش؟ میں نے غور سے اُس کی طرف دیکھا، سیاہ ساڑی میں اس کے چہرے کا کندن دمک رہاتھا۔ سچ ہے ماہتاب کو رات کی سیاہی نکھارتی ہے۔
وہ میری طرف دیکھ کر مُسکرائی، ’’کیا دیکھ رہے ہو، آگے دیکھ کر گاڑی چلائو صاحب۔‘‘ اُسی لمحے زہرا کی نظر سامنے پڑی اور وہ خوف زدہ ہو کر چلّائی، ’’دھیان سے ساحر…‘‘ سامنے سڑک پرتین چار موٹر سائیکل عین درمیان میں لگائے کچھ لڑکے راستہ بند کیے کھڑے تھے، جیسے اُنہیں رات کے اس پہر کسی شکار کا انتظار ہو، مَیں نے پوری قوت سے بریک دبا دی۔ گاڑی ایک زوردار اسکریچ کے ساتھ تقریباً انہیں چُھوتی ہوئی جا کر رُک گئی۔ اُن میں سے دو ہماری طرف لپکے اور ایک زور سے چلّا کر بولا، ’’چُپ چاپ نیچے اترجائو گاڑی سے، ورنہ چھے کی چھے سر میں اتار دوں گا۔‘‘ زہرا نےگھبرا کر میرا ہاتھ پکڑلیا۔
 (جاری ہے)
PDFURDUDUNYA.BLOGSPOT.COM


            
            Download PDF Abdullah 3 Episode 1 By Hashim Nadeem
                                                                                     Download Episode 1 in PDF